* اک ذرّہ اُس کے سامنے میرا وجود تھا *
اک ذرّہ اُس کے سامنے میرا وجود تھا
سر پر مرے بلند جو چرخِ کبود تھا
تشہیر کررہا تھا وہ اپنے سجود کی
میں جس کی اتباع میں محوِ سجود تھا
عبرت کدہ بنادیا قدرت نے آج اُسے
آباد جو زمین پہ شہر ثمود تھا
تعریف کررہے تھے سب اُس کے خلوص کی
جس کا خلوص مقصدِ نام و نمود تھا
صابرؔ خدا کا شکرہے کچھ کہہ سکے ہم آج
ہفتوں ہمارے ذہن پہ طاری جمود تھا
دیتا تھا سب کو بزمِ سخن میں وہ کھل کے داد
صابرؔ سخن شناس سخنور شہودؔ تھا
**************************** |