* دیکھے اشکوں کے جو تارے ترے رخسارو¬ *
دیکھے اشکوں کے جو تارے ترے رخساروں پر
’’آسماں رشک سے لوٹا کیا انگاروں پر‘‘
زہر بھی بدلے دوا کے کبھی دے دیتے ہیں
چارہ گر یوں بھی کرم کرتے ہیں بیماروں پر
اُن کو شاید نہیں معلوم کہ ہے یہ بھی گناہ
پارسا لوگ جو ہنستے ہیں گنہگاروں پر
بے وفائوں پہ ہوئی چشمِ عنایت اُن کی
بے وفائی کا ہے الزام وفاداروں پر
ڈوب جاتا ہے جو سورج تو زمیں والوں کو
دھوپ کچھ دیر نظر آتی ہے میناروں پر
مستحق آپ بھی اعزاز کے ہوتے صابرؔ
سرنگوں ہوتے اگر شاہ کے درباروں پر
**************** |