* کردوں خود کو اُس کے حوالے *
کردوں خود کو اُس کے حوالے
میرے تن کو خوب اچھالے
مجھ کو لگے وہ نرم سی گدّی
اے سکھی ساجن؟ نا سکھی ندّی
ء
اوڑھے ہوئے شبنم کی چادر
ہے وہ دھندلے پن کا مظہر
اُس پہ اثر سردی کا دُہرا
اے سکھی ساجن؟ نا سکھی کہرا
ء
جب بھی میرے پائوں پڑے وہ
ایک قدم آگے نہ بڑھے وہ
ڈال دے میرے پگ میں تالا
اے سکھی ساجن؟ نا سکھی چھالا
ء
اپنی فنکاری وہ دکھائے
سارے تماشائی کو لبھائے
سب پہ کھلا ہے اُس کا پھاٹک
اے سکھی ساجن؟ نا سکھی ناٹک
*** |