* شروع ہم سے وہ جب چھیڑ چھاڑ کر دیتے *
شروع ہم سے وہ جب چھیڑ چھاڑ کر دیتے
ذرا سی بات کو لے کر پہاڑ کردیتے
جو زلزلے مرے قلب و جگر میں اٹھتے ہیں
اگر زمین میں اٹھتے دراڑ کردیتے
پہنچ سکے نہ وہاں شیخ و برہمن ورنہ
فرشتوں میں بھی یہ پیدا بگاڑ کر دیتے
جناب شیخ کو پینے میں عار کیا ہوتی
تم اپنی زلف سے تھوڑی سی آڑ کردیتے
شکستہ حال وہ جب دیکھ لیتے صابر ؔکو
تو بند اپنے مکاں کے کواڑ کردیتے
************** |