* مل جائے جب اُس کو غازہ *
مل جائے جب اُس کو غازہ
مثلِ گل ہوجائے تازہ
نکھرے اُس کا حسن و جمال
اے سکھی ساجن؟ نا سکھی گال
ء
نور کا دھارا اُس سے پھوٹے
جس کو قسمت والا لوٹے
حسنِ بتاں میں اُس کا شہرہ
اے سکھی ساجن؟ نا سکھی زہرہ
ء
اُس کے پاس میںکیوں کر جائوں
کیسے اپنا حال سنائوں
گرچہ نہیں ہے اُس سے بیر
اے سکھی ساجن؟ نا سکھی غیر
ء
جس پر اپنا قہر وہ توڑے
اُس کو بے حِس کرکے چھوڑے
ہو جائے ناکام معالج
اے سکھی ساجن؟ نا سکھی فالج
*** |