* اشک آنکھوں میں بھرے ہوں تو ٹپک جات *
اشک آنکھوں میں بھرے ہوں تو ٹپک جاتے ہیں
جام لبریز جو ہوتے ہیں چھلک جاتے ہیں
اُن کے چہرے پہ جو ِکھلتے ہیں تبسّم کے گلاب
بام و در میری تمنّا کے مہک جاتے ہیں
آگ تو آگ ہے مقدار کی کچھ قید نہیں
ایک چنگاری سے بھی شعلے بھڑک جاتے ہیں
چلتے چلتے تو تھکن ہوتی ہے محسوس ضرور
بیٹھے بیٹھے بھی مگر لوگ تو تھک جاتے ہیں
یاد آتے ہیں تری زلف کے سائے اس وقت
چلتے چلتے جو کڑی دھوپ میں تھک جاتے ہیں
جب کمی درد میں ہوتی ہے ذرا سی صابرؔ
لوگ زخموں پہ نمک آکے چھڑک جاتے ہیں
******************* |