* ریل کا پہیہ گھوما *
ریل کا پہیہ گھوما
کہہ کے خدا حافظ اُس نے
مجھ کو نظر سے چوما
ء
عقل ہے دیکھ کے دنگ
کیسے جڑے ہیں آپس میں
قوس قزح کے رنگ
ء
راکھ تلے چنگاری
بھڑکی تو کرسکتی ہے
پل میں شعلہ باری
ء
خون بہائے فوج
افسر شاہی بنگلے میں
محوِ عیش و موج
ء
کان میں گھونپے سیخ
کرفیو کے سناٹے میں
خاموشی کی چیخ
*** |