* وہ سمجھتا نہیں باپ کے حال کو *
وہ سمجھتا نہیں باپ کے حال کو
کون سمجھائے طفلِ جواں سال کو
تاجرانِ ہنر کے ہیں گاہک بہت
سستے بیچیں وہ کیوں قیمتی مال کو
ڈھال پر ٹوٹ جاتی ہے تلوار بھی
کاٹ دیتی ہے تلوار بھی ڈھال کو
ماری کلہاڑی خود اپنے ہی پائوں پر
جس پہ بیٹھے تھے کاٹا اُسی ڈال کو
ایسے ڈھولک بجانے سے کیا فائدہ
تھاپ بے تال کردے اگر تال کو
کوئی تھپڑ اگر مارے اک گال پر
ہم بڑھاتے نہیں دوسرے گال کو
پہلا اُردو کا اخبار نکلا یہاں
فخر حاصل ہے صابرؔ یہ بنگال کو
****************** |