* سنائیں کس کو رودادِ ستم اپنی زمان® *
سنائیں کس کو رودادِ ستم اپنی زمانے میں
صدا طوطی کی سنتا کون ہے نقاّر خانے میں
اُجالے میں اُجالا تو دکھائی دیتا ہے سب کو
اندھیرا ہم نے دیکھا روشنی کے شامیانے میں
کوئی بن کر بگڑتا ہے، بگڑ کے کوئی بنتا ہے
یہی ہوتا رہا ہے زندگی کے کارخانے میں
وہ اب غم کے قفس میں ایڑیاں اپنی رگڑتا ہے
گزاری زندگی جس نے خوشی کے آشیانے میں
میاں اِس دور میںتم قہقہے کی بات کرتے ہو
’’کلیجہ کانپ جاتا ہے ذرا سا مسکرانے میں‘‘
زمانہ اُس کو کردے گا فراموش ایک دن صابرؔ
زمانے سے جدا ہوکر رہے گا جو زمانے میں
******************** |