* کرو وہ کام کہ زندہ رہو مرنے کے بعد *
کرو وہ کام کہ زندہ رہو مرنے کے بعد
یاد دنیا کرے دنیا سے گزرنے کے بعد
ابھی ساحل پہ پڑے ہیں جو سفینے ساکت
دیکھنا ان کو سمندر میں اترنے کے بعد
آکے پھر صبح کے زینے پہ قدم رکھتا ہے
آفتاب اپنی حدِ شب سے گزرنے کے بعد
ہم ٹھہرتے ہیں کہیں جب تو یہ رہتا ہے خیال
آگے چلنا بھی ہے کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد
اُس کے وعدوں کا بھلا کیسے کیا جائے یقیں
وعدہ کرتاہے جو وعدے سے مکرنے کے بعد
جن کو آتا ہے سنور نے کاسلیقہ صابرؔ
وہ نہیں دیکھتے آئینہ سنورنے کے بعد
***************** |