* مرنے دو چارہ سازو دوائیں مجھے نہ د *
مرنے دو چارہ سازو دوائیں مجھے نہ دو
اب اور زندگی کی دعائیں مجھے نہ دو
میرے لئے پلٹ کے اب آنا محال ہے
میں دُور جا چکا ہوں صدائیں مجھے نہ دو
میں آہ بھر نہ پائوں نہ آنسو بہا سکوں
جرمِ وفا پہ ایسی سزائیں مجھے نہ دو
بیتابیٔ نگاہ مری اور بڑھ نہ جائے
چھپ کر میری نظر سے صدائیں مجھے نہ دو
پھر دل میں آرزوئوں کے شعلے بھڑک نہ جائیں
دامن سے اپنے اور ہوائیں مجھے نہ دو
ایسی خوشی کہ جس میں خلش غم کی ہو چھپی
صابرؔ تم اس خوشی کی دعائیں مجھے نہ دو
************ |