* کاغذ کی ردا اوڑھ کے بارش میں کھڑا ت *
کاغذ کی ردا اوڑھ کے بارش میں کھڑا تھا
وہ جسمِ برہنہ کی نمائش میں کھڑا تھا
جس کے لئے نمرود نے بھڑکائے تھے شعلے
وہ بندۂ مومن گلِ آتش میں کھڑا تھا
ہم اُس کو بٹھانے کی جگہ ڈھونڈرہے تھے
وہ ہم کو اُٹھادینے کی کوشش میں کھڑا تھا
ہم بیٹھے رہے کرکے یقین ایک خدا پر
وہ اپنے خدائوں کی پرستش میں کھڑا تھا
معمار بھی حیرت سے اُسے دیکھ رہے تھے
شیشے کا مکاں سنگ کی بارش میں کھڑا تھا
سجتی تھی جہاں انجمن اربابِ ادب کی
صابرؔبھی اُسی کوچۂ دانش میں کھڑا تھا
*********************** |