* بڑے قرینے سے ہرشے سجا کے رکھتا تھا *
بڑے قرینے سے ہرشے سجا کے رکھتا تھا
وہ گھر کو آئینہ خانہ بنا کے رکھتا تھا
اگرچہ اُس کی کمائی بہت زیادہ نہ تھی
مگراُسی سے وہ تھوڑا بچا کے رکھتا تھا
نہ پھینکتا تھا وہ دیمک زدہ کتابوں کو
انہیں بھی طاقِ نظر پر سجا کے رکھتا تھا
مجال کیا کوئی خلوت میں جھانک لے اُس کی
وہ اپنے آپ کو سب سے چھپا کے رکھتا تھا
پرانے دوست تھے ہر شام ملنے آتے تھے
وہ اُن کے واسطے آنکھیں بچھا کے رکھتا تھا
وہ شخص کتنا کفایت شعار تھا صابرؔ
کہ چاندنی میں دیئے کو بجھا کے رکھتا تھا
**************** |