* یہ لوگ ہیں کیسے کہ جنہیں غم نہیں ہو *
یہ لوگ ہیں کیسے کہ جنہیں غم نہیں ہوتا
مرجائے اگر کوئی تو ماتم نہیں ہوتا
ہر درد کی قسمت میں دوا بھی نہیں ہوتی
ہر زخم کی تقدیر میں مرہم نہیں ہوتا
ہوجاتا ہے شادابیٔ رخسار سے محروم
وہ پھول جو آسودۂ شبنم نہیں ہوتا
اظہارِ تمنا کی کوئی رُت نہیں ہوتی
اقرارِ وفا کا کوئی موسم نہیں ہوتا
ہر در پہ جو جھک جائے اُسے سر نہیں کہتے
سر وہ ہے کہ جو دار پہ بھی خم نہیں ہوتا
یہ دردِ محبت بھی عجب درد ہے صابرؔ
بڑھتا ہے تو بڑھتا ہے کبھی کم نہیں ہوتا
*** |