* سلسلہ اُن سے ملاقاتوں کا پھر تازہ *
سلسلہ اُن سے ملاقاتوں کا پھر تازہ ہوا
مجھ کو تجدیدِ تعلق کا بھی اندازہ ہوا
شدّتِ غم سے ہوئے مائوف یوں ذہن و دماغ
منتشر میری کتابِ دل کا شیرازہ ہوا
خوشنما آنکھوں میں ُسرمے کی بھی رنگت کھل اٹھی
بد نما چہرے پہ مل کر بد نما غازہ ہوا
میرے پرکھوں کی خطا جب میرے سر ڈالی گئی
میں بھگتنے کے لئے تیار خمیازہ ہوا
بے سبب آوازہ کستا تھا جو میری ذات پر
باعثِ تضحیک اُسی پر اُس کا آوازہ ہوا
ہے یقیں وہ دوسرا دروازہ کھولے گا ضرور
غم نہ کر صابرؔ اگر بند ایک دروازہ ہوا
*** |