* رہِ وفا میں قدم کو سنبھال کر رکھنا *
رہِ وفا میں قدم کو سنبھال کر رکھنا
متاعِ قول و قسم کو سنبھال کر رکھنا
سفر سفر ہے نشیب و فراز آئیں گے
قدم قدم پہ قدم کو سنبھال کر رکھنا
بھڑک اُٹھے تو یہ شعلہ اُگل بھی سکتا ہے
چراغِ دیر و حرم کو سنبھال کر رکھنا
اُسی سے ملتی ہے تحریک شعر گوئی کی
دلِ حزیں مرے غم کو سنبھال کر رکھنا
پڑے گا وقت تو تم کو ہمی سنبھالیں گے
تم اپنے واسطے ہم کو سنبھال کر رکھنا
ہمارے عہد کے یہ ترجمان ہیں صابرؔ
ہمارے نقشِ قلم کو سنبھال کر رکھنا
*** |