* سائباں ہو سر پہ کوئی ہے یہ ہر َسر کی & *
سائباں ہو سر پہ کوئی ہے یہ ہر َسر کی طلب
بے گھری کو ہر زمانے میں رہی گھر کی طلب
پائوں پھیلاتے ہی وہ ننگی زمیں پر سوگیا
نیند کا غلبہ ہو تو کیا نرم بستر کی طلب
وسعتوں میں غرق ہوکر چاہتا ہے زندگی
قطرۂ شبنم بھی کرتا ہے سمندر کی طلب
ایک در پر رہ کے جو ہوتا نہیں ہے مطمئن
در بدر اسکو لئے پھرتی ہے در در کی طلب
جنس کم تر پر قناعت کر نہ پائے ہم کبھی
ہر گھڑی ہم کو رہی بہتر سے بہتر کی طلب
ہاتھ آجائے زیادہ سے زیادہ مال و زر
اور کیا ہوگی بھلا صابرؔ توانگر کی طلب
*** |