* اُڑتی ہے کوئی نہ کوئی بات اکثر شہر *
اُڑتی ہے کوئی نہ کوئی بات اکثر شہر میں
کھل گیا ہے جب سے افواہوں کا دفتر شہر میں
گھر پہ گھر ، بستی پہ بستی ، آدمی پر آدمی
موجزن ہے آدمیوں کا سمندر شہر میں
جس طرف دیکھو رواں ہیں شور و شر کے قافلے
رات دن جلسوں جلوسوں کا ہے منظر شہر میں
راستے پر دن کو ہوتا ہے دکانوں کا ہجوم
رات کو فٹ پاتھ پر بچھتے ہیں بستر شہر میں
کچھ نہ آیا ہاتھ تو قسمت کے ہاتھوں بک گئے
آزمانے لوگ آئے تھے مقدر شہر میں
اُس میں بھی صابرؔ نظر آتی ہے کوئی مصلحت
جو کسی کی کرتے ہیں تعریف منہ پر شہر میں
*************** |