* سکوں سے بیٹھتے کیا شور و شرنے دی نہ *
سکوں سے بیٹھتے کیا شور و شرنے دی نہیں مہلت
ہمیں ہنگامۂ شام و سحر نے دی نہیں مہلت
تھکن تکتی رہی میری گھنے سائے کو حسرت سے
مگر مجھ کو مرے ذوقِ سفر نے دی نہیں مہلت
جو رونا چاہا تو آنکھوں سے آنسو ہی نہیں ٹپکے
جو ہنسنا چاہا تو دردِ جگر نے دی نہیں مہلت
تقاضا تھا کہ پہلے اپنے آنسو پونچھ لیتے ہم
مگر اَوروں کے دیدہ ہائے ترنے دی نہیں مہلت
نئے زخموں کا استقبال تازہ دم سے کیا کر تے کہ دم لینے کی بھی بیدادگر نے دی نہیں مہلت
ضروری تھا کہ روشن کرتے پہلے اپنے گھر صابرؔ
مگر فکرِ چراغِ رہ گزر نے دی نہیں مہلت
*** |