* نہ سن پائوگے فرزانوں کی آہٹ *
نہ سن پائوگے فرزانوں کی آہٹ
کہ صحرا میں ہے دیوانوں کی آہٹ
سکوت آمیز لمحوں سے بھی اکثر
سنی ہے میں نے طوفانوں کی آہٹ
ستارے خوف سے سہمے ہوئے ہیں
خلائوں میں ہے انسانوں کی آہٹ
ہوئی ویراں تمنائوں کی محفل
کہاں اب دل میں ارمانوں کی آہٹ
درِ احساس پر دستک ہوئی جب
سنائی دی ہے افسانوں کی آہٹ
مصیبت کو جگا دیتی ہے صابرؔ
سکوتِ شب میں نادانوں کی آہٹ
*** |