* قرض کا بوجھ بڑھتا رہا *
قرض کا بوجھ بڑھتا رہا
سود پر سود چڑھتا رہا
طے جو ہوتے گئے فاصلے
کارواں آگے بڑھتا رہا
جرم سرزد جو اُس سے ہوئے
سب گلے میرے مڑھتا رہا
مجھ کو تھی نو بہ نو کی تلاش
روز اک بات گڑھتا رہا
سب سند یافتہ ہوگئے
میں کتابیں ہی پڑھتا رہا
میرے بارے میں صابرؔ سدا
وہ غلط رائے گڑھتا رہا
*************** |