* جو توانگر ہے وہ رکھتا ہے توانگر کا *
جو توانگر ہے وہ رکھتا ہے توانگر کا مزاج
ہم سخنور ہیں ہمارا ہے سخنور کا مزاج
سایہ داری اُس کے حصے میں کبھی آئی نہیں
دھوپ سے آہنگ ہے نخلِ صنوبر کا مزاج
جس قدر مضبوط ہو زنجیرِ زندانِ شکست
قید کرسکتی نہیں مفتوح لشکر کا مزاج
کرب اَوروں کا بھی کردیتاہے مجھ کو اشکبار
اِس قدر نازک ہے میرے دیدۂ ترکا مزاج
جب برستی ہیں گھٹائیں تو برستا وہ بھی ہے
ہے عجب ہم مفلسوں کے گھر کے چھپرّ کا مزاج
پائے ناکامی سے ٹھکرا دیتا ہے تدبیر کو
جب بگڑ جاتاہے انساں کے مقدّر کا مزاج
ہو بجائے کوہکن کے دستِ آزر میں اگر
دیکھ کر تیشہ پگھل جاتا ہے پتھر کا مزاج
یہ نتیجہ ہے ہمارے صبر کا صابر ؔکہ آج
ہے ستم ڈھانے پہ آمادہ ستمگر کا مزاج
*** |