* جہاں میں تیز تشدّد کی آندھیاں ہیں *
جہاں میں تیز تشدّد کی آندھیاں ہیں آج
زمیں کی گود میں جسموں کی دھجّیاں ہیں آج
نہ اب وفا ہے نہ اہلِ وفاکی محفل ہے
وفا کا نام وفا کی کہانیاں ہیں آج
اُلٹ دیا ہے اُنہیں گردشِ زمانہ نے
بلندیاں یہی کل تھیں جو پستیاں ہیں آج
دروغ گوئی ضمانت ہے کامیابی کی
فریب و مکر ترقی کی سیڑھیاں ہیں آج
اب اُن کی سمت کوئی موج تاکتی بھی نہیں
جو ساحلوں پہ پڑی ٹوٹی کشتیاں ہیں آج
جہاں کھڑے تھے غریبوں کے جھونپڑے صابرؔ
وہاں بلند امیروں کی کوٹھیاں ہیں آج
*** |