* آنے والے کل کے سوچ *
آنے والے کل کے سوچ
ایک ایک پل کے سوچ
کیا کرے گا سارا دن
صبح آنکھ مل کے سوچ
سوچ بیٹھے بیٹھے مت
راہ میں نکل کے سوچ
کتنی دُور جانا ہے
تھوڑی دُور چل کے سوچ
کیسے گر پڑا ہے تو
اُٹھ سنبھل، سنبھل کے سوچ
مسئلہ نیا ہو جب
زاوئیے بدل کے سوچ
تیرگی ہو کیسے دُور
شمع بن کے جل کے سوچ
(یہ غزل دو بحروں پر مشتمل ہے)
**** |