* میرے بھی تو اصول ہیں اُن کے اصول کی *
میرے بھی تو اصول ہیں اُن کے اصول کی طرح
مجھ کو بھی اک صلیب پر لائو رسول کی طرح
زندگی اُن کی ہوگئی مقصدِ زندگی سے دُور
جیتے ہیں لوگ آج کل شوقِ فضول کی طرح
آپسی اختلاف نے روندا ہے اِس قدر ہمیں
بکھرے پڑے ہیں آج ہم راہوں میں دھول کی طرح
کھو چکے خوشبو اپنی وہ رنگ میں بھی کشش نہیں
لگتے ہیں اصلی پھول بھی کاغذی پھول کی طرح
صابرؔ اُسے چمن کدہ کیسے کوئی کہے بھلا
برگ و شجر جہاں کے ہوں جنگلی ببول کی طرح
*** |