* کیوں کہیں ہم بھی آجکل کی طرح *
کیوں کہیں ہم بھی آجکل کی طرح
ہم کہیں گے غزل غزل کی طرح
آج چوبیس گھنٹے کا اک دن
بیت جاتا ہے ایک پل کی طرح
سارا دن انتظار ہم نے کیا
آج بھی وہ نہ آئے کل کی طرح
نام اُس کا ہے آدمی جیسا
کام شیطان کے عمل کی طرح
ہے یہ انسان کی رہائش گاہ
لگ رہی ہے جو اصطبل کی طرح
آپ کو بھی سنیں کے غور سے لوگ
کیجئے بات بیربل کی طرح
شاخِ لب سے ٹپکتے ہیں صابرؔ
میرے اشعار میٹھے پھل کی طرح
*** |