* غرض کی دوستی کا ہے مزہ تلخ *
غرض کی دوستی کا ہے مزہ تلخ
ہوا کرتا ہے ِاس کا تجربہ تلخ
یہ تلخی گھول دی کس نے فضا میں
کہ اب محسوس ہوتی ہے ہوا تلخ
اگر چہ کہہ گیا وہ مسکرا کر
مگر جملہ کہا اُس نے بڑا تلخ
ہے تلخی جس قدر آبِ بقا میں
نہیں ہے اِس قدر آبِ فنا تلخ
یہ آمیزہ ہے دونوں کیفیت کا
شرابِ ناب شیریں، ذائقہ تلخ
ہمیں وہ ڈانٹ بھی لگتی ہے پیاری
اگر لہجہ نہ ہو حد سے سوا تلخ
کہی میں نے جو سچی بات صابرؔ
زمانے کو لگی میری نوا تلخ
*** |