* کبھی عروج کبھی ہے زوال پر سورج *
کبھی عروج کبھی ہے زوال پر سورج
ہمیشہ رہتا نہیں ایک حال پر سورج
نہ سست گام زیادہ ، نہ تیز گام بہت
کہ اپنی چال میں ہے اعتدال پر سورج
طلوع ہوتا ہے جب صبح کو سمندر سے
تو رقص کرتا ہے موجوں کی تال پر سورج
کسان لوگ چلے جارہے تھے گھر کی طرف
اُتر رہا تھا درختوں کی ڈال پر سورج
سماں وہ جشن کا ہوتا ہے سرد ملکوں میں
دکھائی دیتا ہے جب ماہ و سال پر سورج
ملائے آنکھ یہ کس کی مجال تھی صابرؔ
کہ دوپہر کو تھا بامِ جلال پر سورج
**************************** |