* خوبصورت تری تحریر معطرّ کاغذ *
خوبصورت تری تحریر معطرّ کاغذ
کیوں نہ ہو تیرے حسیں ذوق کا مظہر کاغذ
روتے روتے جو میں لکھتا رہا افسانۂ غم
لکھتے لکھتے مرے اشکوں سے ہوا تر کاغذ
سارے عالم کی تو جہ ہو نہ کیونکر اُس پر
بن گیا عالمی خبروں کا جو پیکر کاغذ
وہ بھی کاغذ ہے جسے روپیہ ہم کہتے ہیں
کس قدر قیمتی ہوجاتا ہے چَھپ کر کاغذ
ناکہ بندی کی جو تحریک چلاتے ہیں لوگ
بیٹھ جاتے ہیں وہ رستے پہ بچھا کرکاغذ
بن گیا ہے کوئی کاغذ کی ملوں کا مالک
کوئی بستہ لئے چنتا ہے سڑک پر کاغذ
رات اخبار کے دفتر میں جو گزری صابرؔ
اُوڑھنا تھا مرا کاغذ مرا بستر کاغذ
*** |