* لگتا ہے قاتلوں کے دہن کو بڑا لذیذ *
لگتا ہے قاتلوں کے دہن کو بڑا لذیذ
گویا ہمارے خون کا ہے ذائقہ لذیذ
کانٹوں کو لطف دیتے نہ کیوں اُن کے آبلے
اہل جنوں کے پائوں کا تھا آبلہ لذیذ
مفلس کو روکھی سوکھی بھی دیتی ہے کیا مزہ
لگتی ہے بھوکے پیٹ کو باسی غذا لذیذ
بڑھ جاتی ہے مریض کی جب تلخیٔ مرض
لگتی ہے اُس مریض کو کڑوی دوا لذیذ
اچھا ہوا یہ راز سکندر پہ کھل گیا
آبِ حیات سے بھی ہے آبِ فنا لذیذ
بکھری ہوئی زمیں پہ اُسی کی ہیں نعمتیں
ہم کو کھلا رہا ہے جو میوے خدا لذیذ
صابرؔ ہمارے منہ میں وہ لذّت ہے آج بھی
بچپن میں ماں کے ہاتھ کا لقمہ تھا کیا لذیذ
*** |