* ٹوٹتا ہے کبھی انسان پہ یوں غم کا پہ *
ٹوٹتا ہے کبھی انسان پہ یوں غم کا پہاڑ
وادیٔ دل میں پھٹے جیسے کوئی بم کا پہاڑ
درد اتنے کہ جہاں بھر کی دوا کم پڑ جائے
زخم اتنے کہ اُنہیں چاہئے مرہم کا پہاڑ
چشمِ پرُ آب اگر جمع ہوں دنیا بھر کی
تو نظر آئیں گی وہ دیدۂ پرُ نم کا پہاڑ
گھیر لیتا ہے وہ سورج کو کہا سا بن کر
آسمانوں پہ معلّق ہے جو شبنم کا پہاڑ
دھوپ جب تیز ہوئی بہہ گیا پانی بن کر
منجمد رہ نہ سکا برف کے موسم کا پہاڑ
باندھ کر چادرِ احرام چلے سوئے حرم
حاجیوں کو نظر آیا جو یلم لم کا پہاڑ
جھپکیاں لے نہ سکیںنیند سے بوجھل آنکھیںؔ
رکھ دیا رات نے پلکوں پہ مری غم کا پہاڑ
***
|