* اُس کو بھی اسیرِ شبِ غم دیکھ رہے ہی *
اُس کو بھی اسیرِ شبِ غم دیکھ رہے ہیں
جس شخص کو ہنستے ہوئے ہم دیکھ رہے ہیں
دیکھے تھے کبھی طرزِ ستم اہلِ ستم کے
اب اہلِ محبت کے ستم دیکھ رہے ہیں
جس روز سے آئی ہے مرے ہاتھ میں تلوار
دشمن کو بھی مائل بہ کرم دیکھ رہے ہیں
بستر پہ گناہوں کے پڑے ہیں جو شب و روز
وہ لوگ بھی اب خوابِ ارم دیکھ رہے ہیں
میں نے کسی کافر کو ذرا پیار سے دیکھا
نفرت سے مجھے اہلِ حرم دیکھ رہے ہیں
کیوں عہدہ و منصب کے لئے آج جہاں میں
لڑتے ہوئے انسانوں کو ہم دیکھ رہے ہیں
تسبیح لئے آپ کو دیکھا نہیں صابرؔ
بس ہاتھ میں ہر وقت قلم دیکھ رہے ہیں
******************* |