* کرے نائو کیونکر کناروں پہ رقص *
کرے نائو کیونکر کناروں پہ رقص
وہ کرتی ہے دریا کے دھاروں پہ رقص
جسے شوق صحرا نوردی کا ہے
کرے گا وہی ریگزاروں پہ رقص
اُنہیں کون روکے جو ہیں سر فروش
کریں گے صلیبوں پہ داروں پہ رقص
خبر کیا تھی انساں کا ذوقِ سفر
کرے گا پہنچ کر ستاروں پہ رقص
اُجاڑے گئے جب ہمارے دیار
کئے ہم نے اُجڑے دیاروں پہ رقص
ہم انسان ہیں کاٹھ پتلی نہیں
کریں کیوں کسی کے اشاروں پہ رقص
یہی زیب دیتاہے صابرؔ اُسے
کہ شاہیں کرے کو ہساروں پہ رقص
*** |