* ہوا سارے جہاں کا حال ناقص *
ہوا سارے جہاں کا حال ناقص
زمانہ چل رہا ہے چال ناقص
نہ پوچھو حال بازارِ ہنر کا
یہاں بھی بک رہا ہے مال ناقص
عدو کے ہاتھ میں مضبوط تلوار
ہمارے ہاتھ میں ہے ڈھال ناقص
منایا سالِ نو کا جشن ہر سال
مگر ثابت ہوا ہر سال ناقص
ہماری مشرقی موسیقیت سے
جڑے ہیں مغربی سرتال ناقص
پھٹے ہیں زندگی کے شامیانے
بندھے ہیں اُن میں سب تر پال ناقص
پشیمانی نہ کیوں ہو مجھ کو صابرؔ
نظر آئے مرے اعمال ناقص
*** |