* پھر رہے ہیں ہاتھ پھیلائے ضرورت کے *
پھر رہے ہیں ہاتھ پھیلائے ضرورت کے مریض
جس طرف دیکھو دکھائی دینگے حاجت کے مریض
ہے مرض دونوں کو لیکن نوعیت ہے مختلف
ہم ہیں بیمارِ محبت ، آپ نفرت کے مریض
کیوں نہ اظہارِ عقیدت موند کر آنکھیں کریں
ہیں جو محرومِ نظر اندھی عقیدت کے مریض
کی گئی تشخیص تو کوئی مرض اُن کو نہ تھا
مبتلائے وہم تھے شکّی طبیعت کے مریض
نیک نامی کے ذریعہ ہو کہ بدنامی سے ہو
چاہتے ہیں نام و شہرت ، نام و شہرت کے مریض
نیند آتی ہی نہیں جب تک نہ کہہ لیں چند شعر
بن گئے ہیں ہم بھی صابرؔ اپنی عادت کے مریض
*** |