* اِس قدر تیز چلی گردشِ ایام کی نبض *
اِس قدر تیز چلی گردشِ ایام کی نبض
صبح نے سانس نہ لی ڈوب گئی شام کی نبض
سُست رفتار ہے اتنی کہ ہے بس نام کی نبض
ہائے یہ میری رگوں میں مرے کس کام کی نبض
ذہن میں جب ہو کسی کام کے آغاز کی دُھن
ہے یہ بہتر کہ پرکھ لیجئے انجام کی نبض
دھوپ میں سانس جو لیتی ہے مشقت میری
دھیمی پڑجاتی ہے اُس دم مرے آرام کی نبض
زلزلے َسر جو اُٹھاتے ہیں کبھی زیرِ زمیں
کانپ اُٹھتی ہے فلک بوس در و بام کی نبض
نظر آیا ہمیں اُس میں بھی تعصب کا ہاتھ
ملزموں کی جو ٹٹولی گئی الزام کی نبض
دیکھتا ہے وہ چھری ہاتھ میں صیّاد کے جب
کیوں نہ رُک رُک کے چلے مرغِ تہِ دام کی نبض
جب دھڑکتا ہے مرے دل میں تخیّل صابرؔ
میری رگ رگ میں پھڑک اُٹھتی ہے الہام کی نبض
*** |