* شہر سے وہ بھیجتا رہتاہے اکثر خط *
شہر سے وہ بھیجتا رہتاہے اکثر خط
کتنی خوش ہوتی ہے ماں بیٹے کا پاکر خط
چند لفظّوں میں بھی کتنی ہوتی ہے وسعت
پیش کرتا ہے ہمارے گھر کا منظر خط
ہائے کیا کیا ہو تے ہیں رازونیاز اُس میں
وہ چھپا کے رکھتا ہے تکیئے کے اندر خط
مدّتوں بعد اُسکو جب ملتا ہے خط میرا
پھینکتا ہے پھاڑ کر قاصد کے منہ پر خط
ہوگیا نا آشنا وہ اِس فریضہ سے
لے کے اب آتا نہیں کوئی کبوتر خط
ڈاکیئے کا شکر ادا کرتا نہیں کوئی
سارا دن پہنچاتا ہے بے چارہ گھر گھر خط
ایک بھی خط کا جواب اُس نے نہیں بھیجا
ہم اُسے لکھتے رہے صابرؔ برابر خط
**** |