* جب بھی مے کشی ہوئی اذنِ عام سے شروع *
جب بھی مے کشی ہوئی اذنِ عام سے شروع
دورِ ہائو ہو ہوا دورِ جام سے شروع
گفتگو جو رک گئی رات ’’شب بخیر‘‘ پر
صبح نے اُسے کیا پھر سلام سے شروع
ابتدا مری ہوئی درگزر کی راہ سے
اُن کا راستہ ہوا انتقام سے شروع
ایک سمت انتہا ، اک طرف سے ابتدا
دن ہے ختم شام پر ، رات شام سے شروع
آج تک زمین کا کچھ پتہ نہ چل سکا
کس جگہ پہ ختم ہے کس مقام سے شروع
ہے جہاں پہ انتہا آدمی کی عقل کی
ہوتی ہے پیمبری اُس مقام سے شروع
صابرؔ اُس میں برکتیں ہونگی حاصل آپ کو
جو بھی کام کیجئے رب کے نام سے شروع
**** |