* لمحہ لمحہ پگھل رہے تھے چراغ *
لمحہ لمحہ پگھل رہے تھے چراغ
گویا مرمر کے جل رہے تھے چراغ
چھین کر رات کی پنا ہوں سے
تیرگی کو نگل رہے تھے چراغ
گائوں میں رات چوکیدار کے ساتھ
راستے پر ٹہل رہے تھے چراغ
سہمے سہمے ہوئے اندھیرے تھے
جبکہ شعلے اُگل رہے تھے چراغ
وہ بھی کھل کر چمک نہیں پائے
جگنوئوں کو بھی کھل رہے تھے چراغ
جانشیں وہ تو آفتاب کے تھے
دھیمے دھیمے جو جل رہے تھے چراغ
اپنی ہمت کے زور پر صابرؔ
آندھیوں میں بھی جل رہے تھے چراغ
**** |