* ہے وہ ہر خاص و عام سے واقف *
ہے وہ ہر خاص و عام سے واقف
بادشاہ و غلام سے واقف
پھینکتے کیوں بجھے چراغوں کو
صبح والے تھے شام سے واقف
جن کو سمجھا تھا رہنما ہم نے
وہ بھی تھے چند گام سے واقف
اُس نے مانا نہیں سلام کیا
آپ تو تھے سلام سے واقف
اُس سے اُوپر نہیں اُچھلتے وہ
ہیں جو اپنے مقام سے واقف
پھر بھی اُس نے نہیں کیا پرہیز
تھا حلال و حرام سے واقف
جس نے دیکھا نہیں مجھے صابرؔ
وہ بھی ہے میرے نام سے واقف
**** |