* پھڑک اے چشمِ غمّازِ تصوّف *
پھڑک اے چشمِ غمّازِ تصوّف
اشارہ کر بہ اندازِ تصوّف
سمجھتا ہے نزاکت کو جو اُس کی
اُٹھاتا ہے وہی نازِ تصوّف
نہیں واقف جو اُس کے زیر و بم سے
وہ کیا چھیڑے بھلا سازِ تصوّف
نہ چھو پائے گا آسانی سے کوئی
بہت اُونچی ہے پروازِ تصوّف
اگر اُس کا ہمیں عرفان ہوتا
تو ہم کہتے بہ اندازِ تصوّف
زمانہ ڈھونڈتا ہے اُن کو صابرؔ
کہاں ہیں نکتہ پردازِ تصوّف
**** |