* مجبور ہیں جہاں میں سبھی اپنے حال پ *
مجبور ہیں جہاں میں سبھی اپنے حال پر
ہے کس کو اختیار عروج و زوال پر
پھولوں کی شاخ راس نہ آئی تو کیا ہوا
ہم آشیاں بنائیں گے کانٹوں کی ڈال پر
حد سے زیادہ گرم نہ حد سے زیادہ نرم
انسان کا مزاج رہے اعتدال پر
چہرے پہ ان کے آج نظر آئیں جھرّیاں
جن کو بڑا غرور تھا حسن و جمال پر
ہم سانس لے رہے ہیں ترقی کے دور میں
ترجیح پھر بھی دیتے ہیں ماضی کو حال پر
مسجد کے انہدام میں سازش انہی کی تھی
مانا کہ ان کے ہاتھ نہیں تھے کدال پر
ہوتا کوئی جواب اگر صابرؔ ان کے پاس
خاموش کیوں وہ رہتے ہمارے سوال پر
********************* |