* جو رخ خدا کی طرف ہے تو دل صنم کی طرف *
جو رخ خدا کی طرف ہے تو دل صنم کی طرف
نگاہ دَیر کی جانب قدم حرم کی طرف
پھر اپنا غم مجھے کچھ غم نظر نہیں آتا
جو دیکھتا ہوں کبھی دوسروں کے غم کی طرف
اُبل رہا تھا لہو عہدِ نو کے مقتل سے
زمانہ دیکھ رہا تھا مرے قلم کی طرف
سمجھ نہ پائیں گے وہ زندگی کے پیچ و غم
نگاہ جن کی ہے زلفوں کے پیچ و خم کی طرف
بھٹک رہا ہے زمانہ تلاش میں جس کی
خود آرہی ہے وہ منزل مرے قدم کی طرف
خدا کا شکر ہے صابرؔ کہ میں نہیں اُن میں
جو پیٹھ کرتے ہیں استادِ محترم کی طرف
**** |