* بھول بیٹھا ہے وہ اخلاق و محبت کا سب *
بھول بیٹھا ہے وہ اخلاق و محبت کا سبق
پھر پڑھائو آدمی کو آدمیت کا سبق
بات جو پردے میں تھی پردے سے باہر آگئی
پڑھ رہے ہیں لوگ اب جلوت میں خلوت کا سبق
اب گناہوں پر پشیمانی اُسے ہوتی نہیں
بھول بیٹھا ہے بشر شرم و ندامت کا سبق
جب کتابیں بھی نہیں تھیں مدرسے مکتب نہ تھے
اِس قدر عریاں نہ تھا دورِ جہالت کا سبق
حیثیت مت دیکھئے یہ حوصلے کی بات ہے
دیتی ہے چیونٹی ہمیں عزم و جسارت کا سبق
کھل گئی ہیں درسگاہیں جب نئی تہذیب کی
کیوں پڑھے صابرؔ کوئی کہنہ روایت کا سبق
**** |