* ابھی باقی ہے اُجڑے دل کی رونق *
ابھی باقی ہے اُجڑے دل کی رونق
تری یادیں ہیں اِس محفل کی رونق
یہ بے ترتیب سے جو نقشِ پا ہیں
اُنہیں سے ہے رہِ منزل کی رونق
پٹختی رہتی ہیں جو پے بہ پے سر
یہی موجیں تو ہیں ساحل کی رونق
لکھے ہیں عہدِ ماضی نے جو قصّے
وہی سب ہوں گے مستقبل کی رونق
دیئے جو زخم دل پر دوستوں نے
اُنہی سے ہے ہمارے دل کی رونق
یہ چھینٹے خون کے جو جا بہ جا ہیں
ہے اُن سے کوچۂ قاتل کی رونق
مری مشکل پسندی آج صابرؔ
بنی ہے جادۂ مشکل کی رونق
**** |