* بجھانے کو دلِ رنجور کی آگ *
بجھانے کو دلِ رنجور کی آگ
کسی نے پی مئے انگور کی آگ
بجھے گی کیا کہ بجھتی ہی نہیں ہے
غم و اندوہ کے تنوّر کی آگ
بچا رکھا تھا جس سے خود کو ہم نے
قریب آ ہی گئی وہ دُور کی آگ
جلا کر بستیوں کو کر گئی راکھ
عجب تھی وہ شبِ دیجور کی آگ
بجھا ڈالی ہوس کی آندھیوں نے
ہزاروں مانگ کے سیندور کی آگ
مری تابِ نظر بھی آزماتی
تجلی ریز کوہِ طور کی آگ
غرورِ حسن نے بھردی ہے صابرؔ
نظر میں اُس بتِ مغرور کی آگ
**** |