* میرے دامن میں ہے کہکشانِ غزل *
میرے دامن میں ہے کہکشانِ غزل
مجھ سے تابندہ ہے آسمانِ غزل
ہم نے سینچا ہے خونِ جگر سے اِسے
کیوں نہ شاداب ہو گلستانِ غزل
ہم ہیں واقف تغزّل کے آداب سے
ہم کہیں گے غزل بر زبانِ غزل
کوئی بھی دَور خالی نہیں جائے گا
ہونگے ہر دَور میں قدر دانِ غزل
وہ سمجھتے تھے صنفِ غزل مر گئی
آئے تھے کچھ یہاں نوحہ خوانِ غزل
نام میرا بھی صابرؔ ضرور آئے گا
لکھّی جائے گی جب داستانِ غزل
**** |