* کان پھاڑ دیتے ہیں چند پل کے شور و غل *
کان پھاڑ دیتے ہیں چند پل کے شور و غل
کس قدر یہ بھونڈے ہیں آجکل کے شور و غل
مفلسوں کی بستی میں صبح پہلے ہوتی ہے
کرنے لگتے ہیں بچیّ آنکھ مل کے شور و غل
شہر میں ہیں دونوں کی اپنی اپنی تہذیبیں
جھونپڑی کے ہنگامے اور محل کے شور و غل
لوگ اب سمجھتے ہیں رہنمائے قوم اُن کو
راستے پہ کرتے ہیں جو نکل کے شور و غل
نوجوان ہاتھوں میں موت کے کھلونے ہیں
زندگی کی محفل میں ہیں اجل کے شور و غل
شور و غل کی پیمائش کررہا ہے قانون اب
کیجئے ذرا صابرؔ اب سنبھل کے شور و غل
**** |