* جسے بھی دیکھئے ہے صبح و شام میں مشغ *
جسے بھی دیکھئے ہے صبح و شام میں مشغول
ہر آدمی ہے یہاں اپنے کام میں مشغول
کسی کے دل کو ہے کارِ ثواب سے رغبت
کسی کا ہاتھ ہے کارِ حرام میں مشغول
توقع کیا کہ وہ اَوروں کے کام آئے گا
سدا جو رہتا ہے اپنے ہی کام میں مشغول
تعلقات نے خلوت نشیں نہ ہونے دیا
رہے ہمیشہ سلام و پیام میں مشغول
برات گائوں میں آئی تھی بات گائوں کی تھی
تمام لوگ رہے انتظام میں مشغول
اُنہیں تو اور کوئی کام سوجھتا ہی نہیں
جو لوگ رہتے ہیں مینا و جام میں مشغول
وہ اپنی تیغ زنی کیا دکھائے گا صابرؔ
کہ تیغ رہتی ہے جس کی نیام میں مشغول
**** |