* ذہن پر دبائو کا حال کیا کہیں *
ذہن پر دبائو کا حال کیا کہیں
فکر کے تنائو کا حال کیا کہیں
کررہی ہے پے بہ پے وار موجِ غم
زندگی کی نائو کا حال کیا کہیں
دشمنوں نے کچھ دیئے ، دوستوں نے کچھ
دو طرح کے گھائو کا حال کیا کہیں
دشمنی کے زخم تو کب کے بھر چکے
دوستی کے گھائو کا حال کیا کہیں
ایک شرط جیت لی ، ایک ہار کر
اپنی ضد کے دائو کا حال کیا کہیں
آج اور بڑھ گیا ، کل بڑھے گا اور
منڈیوں کے بھائو کا حال کیا کہیں
کتنے زخمی ہوگئے ، کتنے مرگئے
دیس کے چنائو کا حال کیا کہیں
جو ملا پہن لیا ، کچھ بھی کھالیا
اپنے رکھ رکھائو کا حال کیا کہیں
**** |